بھارت میں نچلی ذات کے خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچوں خاص طور پرہندوستانی لڑکیوں کی زندگی بہت مشکل اور ناقابلِ رشک ہے۔
ان بچوں کی زندگی میں کامیابی کا عملی طور پر امکان بہت ہی کم ہوتا ہے۔ نچلی ذات میں پیدا ہونے والے ان بچوں کے لئے زندگی ایک تلخ تجربہ ثابت ہوتی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ غربت کے خلاف جنگ میں کسی حد تک ریاستی ڈھانچے تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، تاہم غریب خاندانوں کے لوگ ان فوائد کو کم ہی استعمال کر پاتے ہیں۔
تعلیم حاصل کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے تاہم غریب لڑکیوں اور ان کے والدین کے پاس نہیں ہوتا ہے۔ اگر خاندان میں کئی بیٹیاں ہوں تو صورت حال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے، کیونکہ چھوٹے بچے بڑے ہو جاتے ہیں اور انہیں خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اور نچلی ذات کے اکثر خاندانوں میں انہیں کھلانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ ایسی لڑکیوں کے سر پر پیدائش سے ہی چھت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کھلے عام سڑکوں پر یا جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔
اپنے گھر کا خرچ چلانے کے لئے درکار پیسے کمانے کے لیے عموما والدین خود ہی انھیں امیر گھرانوں سے "جوڑنے” کے مواقع تلاش کر تے ہیں۔
اکثر، امیر لوگ خود غریب محلوں میں آتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہاں کوئی ہمیشہ "زندہ سامان خرید” سکتا ہے۔ لڑکی کی قیمت عام طور پر کم ہوتی ہے، لیکن یہ رقم کچھ وقت گزارنے کے لیے کافی ہوتی ہے، اور لڑکی کو سر پر چھت اور زندگی بھر کی خوراک بھی ملتی ہے۔
ہندوستان میں بہت ترقی یافتہ "نوکر کلچر” ہے۔ امیر لوگ ماہانہ تنخواہ پر ملازم رکھنے کے بجائے انہیں "زندگی بھر استعمال” کے حق کے ساتھ یکمشت ادائیگی کر کے خریدتے ہیں۔
قانونی طور پریہ سب غیر قانونی ہے، لیکن اس رجحان کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ غریب لوگ نوزائیدہ بچوں کا ریکارڈ درج نہیں کرواتے، اور ریاستی ڈھانچے کے نمائندے ان سب کو شمار کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
لڑکیاں امیر طبقہ کے ان خاندانوں کو دی جاتی ہیں جہاں وہ اپنی زندگی بھر ملازم کے طور پر خدمت کرتی ہیں، کیونکہ ان لڑکیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان کی خدمت کی ادائیگی کے طور پر، انہیں صرف رہنے کے لئے چھت ، پرانے استعمال شدہ کپڑےاور کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں نوکر بارہ سے چودہ گھنٹے گھر کے کاموں، کھانا پکانے، صفائی ستھرائی اور اپنے آقاؤں کے لیے دیگر اہم امور میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں بہت کام کرنا پڑتا ہے.
آبادی کا بہت امیر طبقہ کو بعض اوقات ایک سےزیادہ ملازموں کی ظرورت ہوتی ہے۔ ایسے خاندان مختلف گھرانوں سے لڑکیاں لینے کے بجائے ایک خاندان کی کئی بہنوں کو ایک ساتھ خرید لیتے ہیں۔
بچوں کو دس یا بارہ سال کی عمر میں بیچ دیا جاتا ہے، کیونکہ اس عمر میں لڑکیاں اس قابل ہوتی ہیں کہ وہ ہلکا پھلکا گھر کا کام کر سکیں۔ جیسے جیسے وہ بڑے ہوتی جاتی ہیں ان کی ذمہ داریوںمیں اضافہ ہوتا جاتاہے۔
جو لڑکیاں گھریلو ملازم کے طور پر خرید لی جاتی ہیں وہ خوش قسمت تصور کی جاتی ہیں کیونکہ بصورت دیگر وہ شادی کے لیے ایک معقول رقم کے عوض بیچ دی جاتی ہیں۔
ہندوستان میں، ایک الگ "دلہن کا بازار” ہے جہاں ممکنہ دولہا "اپنے لیے” اپنی بیوی کا انتخاب کرکے سستے داموں خرید سکتا ہے۔
لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکے بھی اسی صورت حال کا شکار رہتے ہیں۔ چونکہ ملک میں غریب گھرانوں کی نگہداشت کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں ہے اور بچوں کے لیے کوئی معقول کام نہیں ہوتا، اس لیے ایک خاص عمر میں والدین خود ہی انھیں نوکر بنا کر گھروں میں کام پر لگا دیتے ہیں۔